جسمانی صحت کیلئے ورزش کی اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ورزش ہر عمر میںیکساں مفید ہوتی ہے۔ جسم کی مثال ایک مشین کی سی ہے اگر کسی مشین کو استعمال میں نہ لایا جائے تو زنگ آلود ہوجاتی ہے اور اس کی کارکردگی ناقص رہتی اور بہت جلد جواب دے دیتی ہے۔
اسی طرح اگر جسم انسانی کو مناسب حرکت نہ دی جائے تو نہ صرف موٹاپا آگھیرتا ہے بلکہ اس مشین کے اعضاء کے خراب ہونے سے اس کی صلاحیت عمل میں فرق آجائے گا۔
ورزش کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں مفید ہوتی ہے بلکہ ورزش بہترین ٹانک ہے‘ جس سے جسم چاق و چوبند رہتا ہے اور قوت و چستی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ہاتھ پاؤں کو حرکت دینے کانام ورزش ہے۔ یہ ایک نامکمل تشریح ہے۔ ورزش یہ ہے کہ ہم جسم کو اس طرح حرکت دیں کہ اس سے پورا جسم حرکت میں رہے اور اس عمل کیلئے روزانہ کچھ وقت نکال کر اسے باقاعدگی سے کیا جائے۔ کبھی کبھار ورزش کرنا بجائے فائدے کے نقصان دہ ہوسکتا ہے‘اس لیے اگر آپ ورزش کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسے باقاعدگی سے کیجئے۔ صرف عمر اور جسم کے لحاظ سے اس کا تقاضا اور ضرورت الگ الگ ہے۔ تیس سال سے قبل کی عمر میں زوردار اور تھکادینے والی ورزش مناسب ہے۔
ورزش میں دوران خون کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جسم کے ہر حصے میں خون کی فراہمی بڑھ جاتی ہے۔ خون کی نالیاں فراخ ہوجاتی ہیں سانس کی رفتار بڑھتی اور سانس گہرے ہوجاتے ہیں اور یہ سانس خون کی نالیاں جو بند ہوچکی ہوں انہیں کھولنے چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ورزش سے چربی پگھلتی اورموٹاپا نہیں ہوتا۔ سانس سے مراد آکسیجن ہے۔ آکسیجن خون کے ساتھ مل کر ہمارے جسم کے تمام اعضاء کی ساختوں اور بافتوں کے تمام خلیات میں پہنچ کر انہیں زندہ اور متحرک رکھتی ہے۔
ہماری سانس کے ساتھ جو آکسیجن جسم کے اندر جاتی ہے اس کی مدد سے ہمارے پھیپھڑ ے خون صاف اور طاقتور بناتے ہیں۔ نیلے رنگ کی رگیں استعمال شدہ خون کو واپس لوٹاتی ہیں اور سرخ رنگ کی شریانیں خون کے سرخ ذرات کو ایک ایک خلیے تک پہنچاتی ہیں۔
جسم کے جن خلیات کو سرخ رنگ کا خون نہیں ملتا مثلاً ہارٹ اٹیک میں‘ تو دل کے وہ خلیات بند ہوجاتے ہیں اور دوبارہ زندہ نہیں ہوتے۔ ورزش سے آکسیجن اور خون کا بہاؤ تیز ہونے سے خون صاف ہوکر ایک ایک خلیے تک پہنچ جاتا ہے۔ صرف پھیپھڑوں اور خون ہی نہیں بلکہ جسم کا ہر عضو معدہ‘ جگر‘ مثانے گردے اور دماغ کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔ ورزش سے اعصاب کو بھی طاقت ملتی ہے اور جسمانی صحت بہتر ہوجاتی ہے۔ جسمانی عضلات اورجوڑ بہتر کام کرتے ہیں۔
جو لوگ ورزش نہیں کرتے وہ عموماً قبض‘ بدہضمی اور گیس کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سنگین امراض نہیں مگر سخت بے چینی پیدا کرکے زندگی کا سکون غارت کردیتے ہیں۔ یہ گھن ہے جو خاموش قاتل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خون کی رگوں کا تنگ ہونا‘ کولیسٹرول کا بڑھ جانا‘ ہائی بلڈپریشر‘ ذیابیطس اور موٹاپا وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہرروز صبح نماز فجر کے بعد ورزش کیلئے وقت دینا بہتر صحت کی ضمانت ہے۔ اگر ہم ورزش سے کوتاہی کریں گے تو زندگی بے مزہ ہوجائیگی اور جب جسم صحت مند و توانا ہوگا تو زندگی کی تمام مسرتیں اور لذتیں با معنی ہوں گی۔ اس لیے صحت کی نعمت خداوندی سے فائدہ اٹھانے کیلئے ورزش ضروری ہے۔ رسول خدا ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ روز قیامت صحت کے متعلق سوال ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جس جسم کو آرام پہنچانے کیلئے ہم جدوجہد کرتے ہیں‘ جس دماغ کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کیلئے ہم دوڑ لگارہے ہیں وہ جسم لاغر اور غیرصحت مند ہوتو دولت کس کام کی ہوگی۔
یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ جو بچے دوڑتے اور کھیلتے ہیں وہ صحت مند ہوتے ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں میں شروع ہی سے ورزش کو فروغ دیا جائے۔ ہمیشہ صحت مند و توانا اقوام ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ہماری قوم صحت کے حوالے سے بہت پیچھے ہے حالانکہ تعمیر پاکستان کیلئے افراد ملت کی صحت ایک لازمی ضرورت ہے۔ورزش کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہیوی ویٹ لفٹنگ ہی کی جائے بلکہ عمر کے لحاظ سے مناسب چہل قدمی اور اس دوران وقفے سے وقفے دوڑنے سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ کی عمر پچاس سال سے تجاوز کرچکی ہے تو صبح نماز فجر کے بعد لمبی سیر بھی ورزش کے زمرے میں شمار ہوگی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں